Saturday, September 1, 2018

اردو: ابیات و قطعات



ابیات و قطعات
اردو

O
پھر دلِ درد گزیدہ نے صدا دی مجھ کو
سانس نے تیز مگر سرد ہوا دی مجھ کو
دُودِ بغداد کو مِدرار نہ سمجھو، زِنہار
شہرِ کم گوش میں کرنی ہے منادی مجھ کو
۔۵۔جون ۲۰۱۰ء

O
بجا، کہ چاند چھپ گیا، تو چاندنی چلی گئی
ہے اپنی شب کمال کی، کہ پھیلتی چلی گئی
چلو فراق ہی سہی، گئے وہ دن وصال کے
پہ نیند کو یہ کیا ہوا، کہ نیند ہی چلی گئی
طبیب! تو نے بھولپن میں نام کس کا لے دیا
کہ نبضِ کُشتہء فراق ڈوبتی چلی گئی
۔۲۔اگست ۲۰۱۵ء

O
اُس کی یادوں سے مفر ڈھونڈا کتابوں میں مگر
اُس کا چہرہ نقطہ و خط میں نمایاں ہو گیا
۔۱۷۔اکتوبر ۲۰۱۵ء

O
اپنے احساس کی شدت ہی پہ موقوف نہیں
سرد مِہری بھی جلاتی ہے بہت یاروں کی
۔یکم ستمبر ۲۰۱۵ء

O
یہاں پہ سر بہ گریباں ہے ناطقہ اے ہوش
کہ یہ دیارِ ادب٭ ہے، بلند بانگ نہ بن
٭حرمَین شریفَین
۔۲۔ستمبر ۲۰۱۵ء

O
مرے سوال کو تو بھی سوال سمجھا ہے
مرے جواب تلک تیری بھی نگہ نہ گئی
۔۱۹۔مارچ ۲۰۱۶ء 

O
خواب ویران ہو گئے پھر سے
کیا پھر اک درد کی ضرورت ہے؟
شبِ فرقت بھی مختصر ٹھہری 
ہاں! تری یاد کی عنایت ہے
۔۱۱۔مارچ ۲۰۱۶ء

O
لفظ جو بھی دعا کے ہیں، سو ہیں!۔
درد رِستا ہے ماں کے لہجے سے
۔۱۶۔اپریل ۲۰۱۶ء

O
راہِ ویراں پہ کھڑے سوچتے ہیں
کبھی پُرشور و رواں تھے ہم بھی
اپنے بچپن میں کبھی ایسا تھا
ساکنِ کوئے اماں تھے ہم بھی
ہم سدا سے کفِ دریا تو نہیں
غیرتِ کوہ گراں تھے ہم بھی
۔۱۵۔اپریل ۲۰۱۶ء

O
اپنی اپنی ذات کے زنداں میں ہر اک محبوس
اک میں قیدی، دوجا تو ہے، تیجا شہر تمام
اندر مردہ خالی خولی ظاہر میں مضبوط
دھیرے دھیرے کھا جاتے ہیں دیمک سے اوہام
۔۲۸۔مئی ۲۰۱۶ء

O
کہتا تھا قلمبند کروں گا ترے نالے
وہ شخص مگر بیٹھ رہا کر کے قلم بند
اک محرمِ حالات نے کچھ عرض کیا تو
بولا کہ یہ اظہار تو ہے فرش سے پیوند
اپنوں سے شکایات نہیں ٹھیک مری جاں
یعقوب کو سمجھائے کوئی مردِ خرد مند
۔۲۹۔مئی ۲۰۱۶ء

O
زمین والوں نے اتنا لہو بہایا ہے
کہ روئے بدر بھی سرخی میں ڈوب ڈوب گیا
مرا جو خواب کسی صبحِ نو کی کھوج میں تھا
وہ تیری سرمگیں آنکھوں میں جا کے ڈوب گیا
کڑے سفر کی شکایت کسی نے کی تو تھی 
لہو لہو ہے شفق، اس میں کون ڈوب گیا
۔۹۔ستمبر ۲۰۱۶ء

O
چلے بھی جاؤ! نئے درد کو بھی سہہ لیں گے
تکلفات سے اب کے تو دل بھی اوب گیا
۔۹۔ستمبر ۲۰۱۶ء

O
غیضِ یاراں خوش آمدید مگر
معذرت بے سبب نہیں ہوتی
دمِ خلوت لبوں پہ موجِ بسام
پہلے ہوتی تھی، اب نہیں ہوتی
۔۳۔ نومبر ۲۰۱۶ء

O
بڑا لمبا سفر ہے، کچھ تھکاوٹ ہو رہی ہے
ذرا آرام کر لیں، پھر نہا دھو کر چلیں گے
۔۲۴۔نومبر ۲۰۱۶ء

O
نہیں کہ میرا یہاں ہم زباں نہیں کوئی
شریکِ حزن و ملالِ نہاں نہیں کوئی
۔۱۰۔جنوری ۲۰۱۷ء

O
پھر وہی شہر وہی لوگ وہی پتھر ہیں
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے
۔۱۴۔فروری ۲۰۱۷ء

O
سکھا دیں گے سبھی گُر دوستی کے
ہمارا نام لکھ لو دشمنوں میں
۔۲۷۔فروری ۲۰۱۷ء

O
تا، ہو کچھ سرخی لہو میں، حدتِ احساس کی
قہقہوں کے کھوکھلے جثے میں آہیں ڈال دیں
خد و خالِ وقت کے کچھ رنگ تھے اس سے نہاں
اس کی بینائی میں ہم نے اپنی آنکھیں ڈال دیں
شدتِ جذبات میں الفاظ ہکلانے لگے
اس نے میرا نام لکھ کر چار ڈیشیں ڈال دِیں
۔۱۲۔مئی ۲۰۱۷ء

O
پکارو، گر مجھے تو، پہلے دل پر ہاتھ رکھ لینا
کنویں کے قلب سے آواز بھی آتی ہے نم ہو کر
ذرا ٹھہرو! نہا دھو کر بدل ہی لو یہ کپڑے بھی
سفر درپیش ہے لمبا، چلیں گے تازہ دم ہو کر
۔۲۳۔مئی ۲۰۱۷ء

O
یہ بتا، کس کا گلا کاٹ کے خوش بیٹھا ہے؟
تیرے اندر وہ جو وحشی ہے ابھی زندہ ہے
۔۲۔ستمبر ۲۰۱۷ء

O
اٹھی وہ نظر، تو ایسا لگا، کہ دل بھی گیا، نظر بھی گئی
پھری وہ نظر، تو یوں کہ بس اب، نظر تو گئی، خبر بھی گئی
۔۵۔اگست ۲۰۱۸ء

O
معذرت خواہ بے گناہی پر
ہم سا مجبور کوئی کیا ہو گا
۔۵۔جون ۲۰۱۸ء

O
دِل بھر آتا ہے تو گویا حرف زباں سے جڑ جاتے ہیں
بات کریں تو پگلی آنکھیں سارے لفظ بھگو دیتی ہیں
۔۲۸۔جون ۲۰۱۸ء

O
اک سنگِ گراں جانبِ پستی ہے روانہ
اک مرغِ سبک جاں ہے بلندی کو پراَفشاں
۔۵۔ستمبر ۲۰۱۸ء

O
فغاں جہاں سے بھی اٹھتی ہو، اُس پہ کیا موقوف
یہاں سماعتیں بیگانہ ہوتی جاتی ہیں
۔۲۰۔نومبر ۲۰۱۸ء

O
صدا پلٹ کے خیاباں سے اب نہیں آتی
پکار کر سرِ صحرا بھی دیکھتے چلئے
۔۲۰۔نومبر ۲۰۱۸ء

O
یخ بستگی نے آگ سی بھر دی وجود میں
یوں مل گیا جواب، مرے سرد مِہر کو
۔۲۶۔دسمبر ۲۰۱۸ء

O
اے جنوں! لکھ لے مجھے اپنے پشیمانوں میں
اب مرا نام بھی آنے لگا فرزانوں میں
عصرِ حاضر کے فقیہوں سے کوئی پوچھے تو!
کیا لئے پھرتے ہیں زربفت کے جزدانوں میں
۔۶۔دسمبر ۲۰۱۸ء

O
تمہارے سرد لہجے نے سماعت منجمد کر دی
چلو اچھا ہوا، ورنہ رگوں میں خون جم جاتا
۔۲۶۔دسمبر ۲۰۱۸ء

O
ابھی، گر ہو سکے، کچھ کام کر لو
ابھی اک عمر مرنے کو پڑی ہے
۔ ۲۹۔دسمبر ۲۰۱۸ء

O
مہربانوں کے بدلتے ہوئے لہجے! توبہ!
ایسا لگتا ہے میں ہر بات غلط کرتا ہوں
۔۹۔جنوری ۲۰۱۹ء

O
وہ خوں بہا نہیں تھا، وہ مٹی کا مول تھا
مادر فروش، حرص کے پتلے کا بول تھا
۔۲۲۔جنوری ۲۰۱۹ء

O
زلف کا ابر ہے اک برقِ نہاں کا غمّاز
سات پردوں میں بھی ہو، حسن کہاں چھپتا ہے
۔۷۔فروری ۲۰۱۹ء

O
مت بھول، تیرے حسن کا پندار مجھ سے ہے
گر یوں نہیں  تو کہہ دے کہ بیزار مجھ سے ہے
اے غزلِ تارِ خستۂ پنبہ! چلو ہٹو
سب جانتے ہیں، رونقِ بازار مجھ سے ہے
یہ طرزِ امتیاز بہت جاں نواز ہے
اقرار ہے ہر ایک سے، انکار مجھ سے ہے
۔یکم اگست ۲۰۱۸ء