دو رباعیاں
وافر جو مجھے درد ملا سب کو ملے
دولت جو ہوئی مجھ کو عطا سب کو ملے
کیوں میں ہی سزاوارِ عنایات رہوں
جو مجھ کو ملا، میرے خدا، سب کو ملے
دولت جو ہوئی مجھ کو عطا سب کو ملے
کیوں میں ہی سزاوارِ عنایات رہوں
جو مجھ کو ملا، میرے خدا، سب کو ملے
اس دور میں بھی مہر و محبت ڈھونڈے
برفانی ہواؤں میں حرارت ڈھونڈے
برفانی ہواؤں میں حرارت ڈھونڈے
آسیؔ کا کرو کچھ کہ یہ دیوانہ ہوا
سہمے ہوئے لوگوں میں ظرافت ڈھونڈے
مِری آنکھیں مجھے دے دو
وہ بھی اپنا ہی بلاگ ہے
نا؟تو پھر یہاں کیا اور کیوں اور کس لئے؟
اُدھر نثر کا سلسلہ رکھا ہے۔
اور اِدھر
شعری کاوشوں میں اردو اور پنجابی غزل اور نظم کی معروف اصناف ہیں،
اور اِدھر
شعری کاوشوں میں اردو اور پنجابی غزل اور نظم کی معروف اصناف ہیں،
فارسی اور اردو شاعری سے پنجابی شعر میں ترجمہ ہے،
کچھ فارسی شعر اپنے بھی ہیں۔
کچھ فارسی شعر اپنے بھی ہیں۔
یوٹیوب پر رکھی کچھ آڈیو ویڈیو کی باتیں بھی ہیں،
اور، اور، اور ۔۔۔ اپنا ساتھ رہے گا تو اورباتیں بھی ہوتی
رہیں گی۔
ویلکم سر
ReplyDeleteزندہ باد
امید ہے رونق لگے گی یہاں ان شاءاللہ
رونقاں مک گئیاں چیمہ صاحب۔ تہاڈے کول ٹائم نہیں تے ہور کوں ٹائم دے گا؟ میں ہن تیکر جو کچھ وی کہیا اے جس نوں شعر قرار دتا جا سکے ایتھے رکھ دتا ہے۔ اگے مرضی سجناں دی۔ کیہ خیال اے؟۔
Deleteکیہ رونق لگنی اے جی۔ سارے اپنے اپنے کمیں رُجھ گئے۔ چوپالاں وسن تو پہلوں ای اجڑ گئیاں۔ ہن تے بس "کلا بہہ کے شیشہ ویکھ" والی گل رہ گئی اے۔
ReplyDeleteکلا بہہ کے شیشہ ویکھ
آودیاں تقصیراں پڑھ
کندھاں ولے جھاتی مار
لکھیاں نیں تقدیراں پڑھ
ایہ پچھن دا ویلا نہیں
کیہ لکھیا زنجیراں، پڑھ
حسن بولدا نہیں ہوندا
متھا ویکھ لکیراں پڑھ
جیوندے رہو۔
مئی 1995
ReplyDeleteاندھیرا، اندھی نگری، یہی، وہیں،