Friday, March 15, 2019

غزل: اصول ہم نے بنا لیا ہے ضرورتوں کو

غزل

اصول ہم نے بنا لیا ہے ضرورتوں کو
بھلائے بیٹھے ہیں اور ساری حقیقتوں کو

ہمارے ہاتھوں میں آ گئے ہیں اگرچہ تیشے
کسے کہیں اب تلاش کر لائے ہمتوں کو

چھپائے پھرتے ہیں آپ لوگوں سے اپنے چہرے
جو آزمانے چلے تھے میری محبتوں کو

مجھے زمانے نے اور بھی غم عطا کئے ہیں
میں دل میں کب تک بسائے رکھوں شکایتوں کو

چہار سو مکر و فن کی دنیا سجائی میں نے
میں طاقِ نسیاں میں رکھ چکا ہوں صداقتوں کو

قضا کی گھنٹی تو ایک مدت سے بج رہی ہے
جگائے کون اِن جدار جیسی سماعتوں کو

ابھی تو آسیؔ کے ہاتھ پتوار پر جمے ہیں
ابھی تو بڑھنا ہے اور طوفاں کی شدتوں کو


۔  ۲۲؍ دسمبر ۱۹۸۵ء

No comments:

Post a Comment