غزل
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
پھر کبھی ذکرِ یار کر لینا
شکوۂ روزگار کر لینا
اک نظر دیکھ لیجئے پہلے
پھر نگاہوں کے وار کر لینا
ایک مسکان کا فریب تو دے
نفرتیں بھی ہزار کر لینا
کس قدر سادگی سے وہ بولے
ہاں، ذرا انتظار کر لینا
ہائے کتنے فریب دیتا ہے
عادتاً اعتبار کر لینا
اک ذرا دوستوں کو جانے دو
زخم دل کے شمار کر لینا
بڑا مہنگا پڑا ہے آسیؔ جی
عقل پر انحصار کر لینا
۔ ۲۱؍ جولائی ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment