غزل
ہجر نے جتنے سکھائے تھے قرینے مجھ کو
وصل میں بھول گئے سارے کے سارے مجھ کو
صورتِ عکس لرز جائے گا وہ پانی میں
اس سے کہہ دو مری آنکھوں سے نہ دیکھے مجھ کو
ابر گیسو کی جھلک آئی نظر سپنے میں
آئے پھر دیر تلک نیند کے جھونکے مجھ کو
کان بجتے ہیں بھرے شہر کے سناٹے میں
اس خرابے میں کوئی ہے جو پکارے مجھ کو
جل گئی روح بھی جب آگ چناروں میں لگی
وقت نے ایسے مناظر بھی دکھائے مجھ کو
شہر والو کوئی مجھ جیسا بھی تنہا ہو گا
اپنے آسیؔ سے کہو، اپنا بنا لے مجھ کو
۔ ۳۔دسمبر ۲۰۰۹ ء
No comments:
Post a Comment