Friday, March 15, 2019

غزل: آپ سے رشتے کی صورت اور ہے

غزل

آپ سے رشتے کی صورت اور ہے
اور ہے ملنا محبت اور ہے

میرے اندر تھا جو انساں مر گیا
موت کی اب کیا ضرورت اور ہے

چھا رہے ہیں بے یقینی کے سحاب
آج بھی موسم کی نیت اور ہے

خوف کا ہر سر پہ سورج ہے دھرا
اس سے بڑھ کر کیا قیامت اور ہے

بات سچی تھی زباں پر آ گئی
ورنہ واعظ کی تو عادت اور ہے

رنج ہوتا ہے بچھڑنے کا ضرور
پھر ملیں تو اس میں راحت اور ہے

ہے تجھے خواہش وصالِ یار کی؟
منتظر رہنے میں لذت اور ہے

اب ستارے آنکھ سے گرتے نہیں
اب دلِ آسیؔ کی حالت اور ہے

۔  ۹؍ ستمبر ۱۹۸۵ء

No comments:

Post a Comment