کوئی تو بات ہے!۔
بات کچھ اور ہے!۔
واقعہ یوں نہیں !۔
یوں نہیںہے کہ اک دم زمیں تھرتھرانے لگی
اور کہسار کی چوٹیاں ڈھے گئیں
اور اُن پر بسی بستیاں، دیکھتے دیکھتے
پتھروں کے سمندر میں یوں بہہ گئیں
جیسے خاشاک ہو!۔
یوں نہیں!!! اہلِ ادراک!ایسانہیں!۔
بات کچھ اور ہے!۔
ہاں! ستم تھا رواکوئی ایسا کہ جو
میرے شایاں نہ تھا،تیرے شایاں نہ تھا!۔
ظلم ایسا کوئی ہو رہا تھا کہ جو
کوہساروں پہ بھاری پڑا!!!۔
کون جانے!۔
کسی بے نواکی فغاں ابن قاسم تلک
جب نہ پہنچی تو سوئے فلک چل پڑی!۔
یا ۔۔۔ کہیں کوئی قارون اپنے خزانوں
کی بھاری کلیدوںتلے دب گیا!۔
یا ۔۔۔ کوئی تاجر بے وطن
اہلِ ایکہ کی مکاریوں کا نشانہ بنا!۔
یا ۔۔۔سدومی کوئی، ایک سفاک بوڑھے کی
بھوکی ہوس کی غلاظت میں لتھڑا ہوا
اپنا چہرہ زمیں میں چھپانے کو بے چین ہو!۔
یا ۔۔۔ کہیں ۔۔۔
ان پہاڑوں کے دامن میں بہتی ہوئی اک ندی
کچی کلیوں کو موسم سے پہلے چٹکتے ہوئے دیکھ کر
دم بخود رہ گئی!
مرغ و ماہی کی آنکھیں بھی شیشہ ہوئیں
پتھروں کے کلیجے چٹخنے لگے، اور وہ اپنی جا سے کھسکنے لگے
کانچ کی کتنی گُڑیاں کسی بھاری پتھر سے کُچلی گئیں!۔
یا ۔۔۔ کسی اژدہے کی سَمِیں پھونک
ارضی بہشتوں کی ساری فضا میںکوئی زہر سا بھر گئی
اور انسان رشتوں کی پہچان سے ناشناسا ہوا
ایک حیوان اور اِک ہوس رہ گئی!۔
دونوں مل کر ضمیر شرافت کے لاشے پہ ناچا کئے!۔
یا ۔۔۔ کسی مصر کا حکمراں
اپنے قد، اپنی اوقات سے
ایسا نکلا کہ آدم کی اولاد، اُس کی نظر میں
پرِکاہ سے یا پرِ مُور سے بھی دَنی رہ گئی!۔
یا ۔۔۔ مکیں اپنے سنگیں مکانوں، فصیلوں کو
فطرت کے قانون سے ماورا جان کر
بجلیوں، بادلوں، زلزلوں کا تمسخر اُڑانے لگے!۔
یا ۔۔۔ قوانینِ فطرت سے بڑھ کر
کسی حاکمِ بابل و نینوا کے بنائے ہوئے
ضابطے محترم ہو گئے
اور انسان طبقوں میں بٹنے لگا!۔
یا ۔۔۔ کتابِ ہدایت کتابِ حکایت بنا دی گئی
کاہنوں، جوگیوں، سادھوؤں کا کہا محترم ہو گیا
اور حرفِ ہدایت کو ذہنوں سے
اس طرح کھرچا گیا، سوچ اِس طور بدلی
کہ ہر کعبۂ جاں کا سنگِ سیہ خود خدا ہو گیا
اور خدا آدمی سے جداہو گیا!۔
یا ۔۔۔ پیامِ ہدیٰ کے فقط لفظ باقی بچے
اور روحِ ہدیٰ کھو گئی
قلبِ محراب میں اک ادا کار
اپنی اُپَج کے مطابق معانی کی بازیگری کر گیا
یا ۔۔۔ کہیں اِک اَرِینا سجا!۔
اک طلائی قفس میں مقید
حسیں واہمے کے لئے
لوگ اپنی انا قتل کرنے لگے
جب انا مر گئی تو سوائے تعفن کے واں کچھ نہ تھا
صاحبو! آخرش، یہ تو ہونا ہی تھا!۔
یہ جہاں بھی جہاں ہے مکافات کا!
ورنہ وہ ۔۔۔ جس کی رحمت کسی حد میں آتی نہیں
وہ حوادث کو یوں راہ دیتا کبھی؟!۔
بات کچھ اور ہے!۔
جس پہ اتنی وعیدیں اتاری گئیں
کاش ہم جان لیں! بات کوئی تو ہے!۔
کارواں اک پڑاؤ پہ آکر رکا تھا ذرا دیر کو
فکرِکم کوش نے راستہ کھو دیا
منزلِ عشق دل نے فراموش کی
ذوقِ عرفاں پہ حاوی شکم ہو گیا
گرگ و سگ آدمی سے ہویدا ہوئے
کرگسِ طمع کے تیز پنجے ہوئے
اور کنجشک پر خوف طاری ہوا
برگ و بر شاخساروں پہ لرزاں ہوئے
زندگی ڈر گئی!۔
تن کے زنداں میں جو روح تھی، مرگئی
شدتِ غم سے پتھر لرزنے لگے
ارضِ جاں پر بپا ہو گیا زلزلہ، کچھ نہ باقی بچا!۔
آنسوؤں کے خدا!۔
قلبِ انساں می بھی ہو بپازلزلہ!۔
۔ ۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء ۔۔۔ عیدلفطر ۱۴۲۶ھ۔
No comments:
Post a Comment