غزل
اپنوں نے وہ زخم لگائے
غیروں کے مرہم یاد آئے
آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں
جتنے کوئی خواب سجائے
نہ ملنے پر رنجیدہ تھے
اس سے مل کر بھی پچھتائے
مصلحتوں نے لب سی ڈالے
کوئی کچھ کیسے کہہ پائے
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے
ایک پھول درجن بھر کانٹے
یار ہمارے تحفے لائے
ان زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے
یہ بھی ہے اظہار کی صورت
ہونٹ ہلیں، آواز نہ آئے
آسیؔ اپنی سوچ کو روکو
تعزیروں کے موسم آئے
یکم مارچ ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment