Thursday, March 14, 2019

غزل: اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی

غزل

اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی
لیکن اس کو کیا کہئے، وہ آنکھیں ہیں بیگانی سی

دنیا کے ہنگاموں میں جب یاد کسی کی آتی ہے
جانے کیوں جاں پر چھا جاتی ہے قدرے ویرانی سی

لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں
تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی

آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے
عارض و لب، گیسو  کے سائے،  باتیں ہوئیں پرانی سی

آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی

آسیؔ جانے انجانے میں کیسی خطا کر بیٹھا ہے
اس کے لہجے میں پنہاں ہے ایک خلش انجانی سی

۔۔ ۱۷؍ مارچ ۱۹۸۵ء


No comments:

Post a Comment