غزل
ابتر کاٹی ہیں راتیں
سو کر کاٹی ہیں راتیں
ریشہ ریشہ سپنوں کا
بن کر کاٹی ہیں راتیں
بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں
اکثر کاٹی ہیں راتیں
سنتے ہیں کہ اس نے بھی
رو کر کاٹی ہیں راتیں
رکھ کر سینے پر ہم نے
پتھر کاٹی ہیں راتیں
شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں
تم نے بھی تو آسیؔ جی
مر مر کاٹی ہیں راتیں
۔ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment