غزل
بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے
وہ اپنی ذات کے زنداں کا قیدی
پسِ دیوار تنہا بولتا ہے
یہ ہونا تھا مآلِ گریہ بندی
سرِ مِژگاں ستارہ بولتا ہے
مہِ کامل کو چُپ سی لگ گئی ہے
مرے گھر میں اندھیرا بولتا ہے
مرے افکار کی موجیں رواں ہیں
مرے لہجے میں دریا بولتا ہے
یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں
یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے
۔ ۲۸؍ اگست ۱۹۹۶ء
No comments:
Post a Comment