Friday, March 15, 2019

غزل: مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے

غزل

مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے
کہ میری آنکھوں میں سرخ شبنم اتارتا ہے

میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے

ڈرا رہا ہے مجھے وہ میرے پڑوسیوں سے
مرے جگر میں جو زہر خنجر اتارتا ہے

مری حویلی میں میرے بھائی جھگڑ رہے ہیں
اُدھر کوئی اپنے ترکشوں کو سنوارتا ہے

حصارِ ظلمت میں کب سے انساں پڑا ہوا ہے
کسی نئے دن کو دورِ حاضر پکارتا ہے

دمِ سرافیل ہے نقیبِِ جہانِ نو ہے
وہ ایک جذبہ کہ سر دلوں میں ابھارتا ہے

نوید ہے اک جہانِ نو کی، اسی کے دم سے
۔”ہماری روحوں میں ارتقا پر سنوارتا ہے“۔



۔  ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء

No comments:

Post a Comment