Thursday, June 22, 2017

غزل: شکوہء روز و شبِ تلخ بھی کرنے نہ دیا

غزل

شکوہءِ روز و شبِ تلخ بھی کرنے نہ دیا
مجھ کو اک شخص نے نظروں سے اترنے نہ دیا

آنکھ بھرتی ہی نہ تھی، اُس کے رُخِ سادہ سے
اِس لئے بھی تو اسے میں نے سنورنے نہ دیا

لذتیں ہجرِ مسلسل کی بھی کچھ ہوتی ہیں
اور کچھ اُس کی محبت نے بھی مرنے نہ دیا

وقت کے ساتھ کچھ انگور لگا تھا آنے
اپنے پیاروں نے مگر زخم کو بھرنے نہ دیا

اے انا! تیرے لئے درد جہاں بھر کے سہے
ہاں، مگر خود کو بلندی سے اترنے نہ دیا

شہر والو کوئی مجھ جیسا بھی تنہا ہو گا!
جس کی خود داری نے اظہار بھی کرنے نہ دیا

۔۱۶۔اپریل ۲۰۱۷ء


No comments:

Post a Comment