غزل
دردِ اظہار میں کٹ جاتی ہے
روح گفتار میں کٹ جاتی ہے
کون کہتا ہے کہ رفتارِ حیات
حلقۂ دار میں کٹ جاتی ہے
کام کا کام نہ کر پائیے تو
کارِ بے کار میں کٹ جاتی ہے
اے خوشا، آبلہ پا! ہر تکلیف
راہِ پرخار میں کٹ جاتی ہے
بازئ دل ہے عجب جنگ آثار
جیت بھی ہار میں کٹ جاتی ہے
شبِ فرقت کی طوالت معلوم
شوقِ دیدار میں کٹ جاتی ہے
۔۱۳۔جنوری ۲۰۱۶ء
No comments:
Post a Comment