ایک ادھوری نظم
(۱)
وقت بھی کم مسافرت بھی کڑی
اور منزل سے بے خبر رہبر
رہرووں کا مزاج بھی برہم
راستہ خار دار جنگل کا
دہشتوں کے مہیب سائے ہیں
دن کو بھی روشنی نہیں ملتی
رات کا راج سارے رستے پر
کوئی جگنو بھی دسترس میں نہیں
اور چنگھاڑتی ہواؤں کا
شور ایسا کہ شورِ محشر ہے
عرصۂ حشر سر پہ آن پڑا
کارواں کا نصیب کیا ہوگا!۔
(۲)
ایک بیوہ کہ جس کے سب بیٹے
اس کا خون چوس کر بڑے ہو کر
گھور تاریک راستوں پہ چلے
راستہ گھر کا یاد بھی نہ رہا
اور ماں بے اماں ہوئی تنہا
بے بضاعت وہ جان بے چاری
جس نے آدھی صدی گزاری ہے
ایک امید کے سہارے پر
شاید اک روز وہ پلٹ آئیں
آج اس کو اگر ملے یہ خبر
تیرے بیٹے نہیں رہے تیرے
کیا قیامت نہ اس پہ ٹوٹے گی!۔
(۳)
ایک ہے باغبان فطرت کا
وہ جو دھرتی میں پھول بوتا ہے
روز و شب دیکھ بھال کرتا ہے
سینچتا بھی تراشتا بھی ہے
چھانٹتا بھی نکھارتا بھی ہے
رنگ و بو کا حساب رکھتا ہے
خار و خس کو بھی پالتا ہے وہ
چند پودے بھلے برے بھی ہوں
ان کی بھی دیکھ بھال کرتا ہے
باغ سارا خراب ہو جائے
چند پودے بھلے بھلے بھی ہوں
وہ سبھی کو اکھاڑ دیتا ہے
اور پھر سے زمیں بناتا ہے
پھر گلستاں نیا اگاتا ہے
(۴)
عصر کا وقت آن پہنچا ہے
دھوپ کا رنگ ہے بدلنے کو
چند گھڑیوں کا میہمان ہے دن
شام کا انتظار کاہے کو
اس سے پہلے کہ شام ہو جائے
جاں سے گزرو جہان سے نکلو
قریۂ بے امان سے نکلو
واہموں سے گمان سے نکلو
طرزِ افکار کو بدلنا ہے
وہم گرداب سے نکلنا ہے
رہگزارِ یقیں پہ چلنا ہے
(۵)
قسم اپنے شکستہ بازو کی
اور کشمیر کے چناروں کی
بیت اقدس میں ہو کا عالم ہے
قلبِ انساں پہ موت طاری ہے
آدمیت کی روح زخمی ہے
بے قراری بھی اب نہیں باقی
زندگی جانئے ادھوری ہے
میرے افکار بھی ادھورے ہیں
اور یہ نظم بھی ادھوری ہے
۔ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء
No comments:
Post a Comment