Friday, March 15, 2019

نظم: ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لَو

ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لَو



(۱)
اس سے پہلے کہ شام ہو جائے
اس سے پہلے کہ آفتابِ حیات
موت کی تیرگی میں کھو جائے
آؤ کچھ ایسے کام کر جائیں
جو زمانے میں اپنی یاد بنیں

(۲)
زندگی کی کڑی مسافت ہے
کرب کا بے کراں سمندر ہے
آرزو کے سراب ہیں ہم ہیں
ہم قدم ہے ہماری تنہائی
موت کا رقص ہے بگولے ہیں
پاؤں کے نیچے آبلوں کے پھول
اور تشنہ زبان پر کانٹے
جسم ہے اور ہیں تھکن کے زخم
دھوپ کی برچھیوں کا مرہم ہے
اس سے پہلے کہ تیرگی چھا جائے
اور صحرا بھی آنکھ میں نہ رہے
اس سے پہلے کہ سانس تھم جائے
وقت کی  نبض بے صدا ہو جائے
آؤ کچھ کام ایسا کر جائیں
جو زمانے کو یاد رہ جائے

(۳)
زندگی بے ثبات ہے لیکن
جاودانی مزاج رکھتی ہے
موجۂ نورِ کرمکِ شب تاب
ظہرِ کاوشِ مسلسل ہے

(۴)
تیرگی بے کراں سہی ہم دم
ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لَو
کوئی جگنو ہے یا ستارہ ہے
ایک وہ اشک جو دمکتا ہے
ایک وہ سانس جو بھٹکتی ہے
سانس وہ جس کو آہ کہتے ہیں
دل کی گہرائی سے نکلتی ہے
دل کی گہرائی میں اترتی ہے

(۵)
شاخ پر حسن مسکراتا ہے 
غازۂ نورِ اولینِ سحر
اور مشاط قطرۂ شبنم
چند گھڑیوں کی بات ہوتی ہے
اور تاثیرِ موجِ روح فروز
زندگی بھر کو ساتھ رہتی ہے

(۶)
زندگی بے ثبات ہے، سو ہے!
بے ثباتی میں حسن ہے اس کا
۔’’موت اک ماندگی کا وقفہ ہے‘‘۔
سو کے جاگے تو پھر نہیں سونا
اور یہ اپنی بے سکوں فطرت
کتنی بے چینیاں جگاتی ہے

(۷)
اس سے پہلے کہ شام ہو جائے
جان سے اس طرح گزر جائیں
اور کچھ ایسا کام کر جائیں
زندگی کا جواز جو ٹھہرے
آدمی کا وقار کہلائے
آدمی کو پیام دینا ہے
اس سے پہلے کہ شام ہو جائے
روشنی کو دوام دینا ہے
آدمی کو دوام دینا ہے



۔  ۲۲؍ جولائی ۱۹۹۸ء

1 comment:

  1. ایک جگہ ’’مظہر‘‘ کا (م) لکھنے میں رہ گیا، ظہر پڑھا جا رہا ہے۔ درست متن یون ہے:
    مظہرِ کاوشِ مسلسل ہے

    ReplyDelete