Friday, March 15, 2019

نظم: یہ وقت ِ صبح ِ کاذِب ہے

یہ وقت ِ صبح ِ کاذِب ہے



یہ وقت ِ صبح ِ کاذب ہے
یہ مشرق کی طرف جو چھا گئی ہے
وہ ردائے نور جھوٹی ہے
ابھی پھر تیرگی ہو گی!۔
وہ راتوں کا مسافر
دیر گزری، جانبِ مغرب رواں تھا
رات کا افسوں جواں تھا، میں نے دیکھا تھا
وہ بے منزل کا راہی، جو تھکن سے چور لگتا تھا
وہ جس کے ہر قدم سے اک نقاہت سی ہویدا تھی
کماں تھی یا کمر تھی اُس تھکے ہارے مسافر کی
جو مانگے کی شعائیں اس نے پہنی تھیں
وہ خود بھی مر رہی تھیں، اور جگنو مر چکے تھے
ہاں! ابھی تو موت بام و در پہ چھائی ہے
ابھی اولادِ آدم شب گرفتہ ہے
وہ ہنستی بولتی گلیاں

گھروں میں شور بچوں کا، وہ بے ہنگام ہنگامے
سبھی! اس بے کراں شب کے سمندر میں
کسی کالی بلا کے سِحرِ بے درماں میں جکڑے ہیں
ابھی تو رات ہونی ہے!۔

مگر، مایوس کیا ہونا!۔
کہ وقت ِ صبح ِ کاذب تو نقیب ِ صبح ِ صادق ہے!
ابھی گو رات ہونی ہے
مگر یہ رات کے آخر کا افسوں ہے
طلسمِ تیرگی کی آخری گھڑیاں
کسی کالی بلا کی موت کی ہچکی
کہ جس کے ساتھ
اس کے سارے جادو ٹوٹ جائیں گے
نوائے جاں فزا ’’اللہ اکبر‘‘ کی
زمیں کو، آسماں کو
روشنی سے ایسے بھر دے گی
کہ چڑیاں چہچہائیں گی
شگوفے مسکرائیں گے

سنو! جو رات کی اس آخری ساعت میں
جاگے اور سو جائے
اُسے صبح ِ مبیں کی اوّلیں ساعت سے
محرومی کا
ایسا زخم آئے گا
کبھی جو بھر نہ پائے گا!۔



۔  جون ۱۹۹۸ء

No comments:

Post a Comment