Friday, March 15, 2019

نظم: ہوا کے دوش پر

ہوا کے دوش پر



ابھی کچھ دیر پہلے خط ملا اُس کا
بلایا ہے مجھے اُس نے
لکھا ہے:  تم بھی آ جاؤ
بڑے لوگوں کی محفل ہے
کبھی اُن سے جو مل بیٹھو
تمہیں معلوم ہو جائے
تمہاری حیثیت ہے کیا!۔
تمہیں معلوم ہے یہ تو
کہ میرے شہریاروں سے مراسم ہیں
تمہیں میرے قد و قامت کا اندازہ بھی ہو جائے
بڑے لوگوں کی محفل ہے
امیرِ شہر بھی ہو گا ۔۔۔۔
سلیقہ تم کو آ جائے غلامی کا
تمہیں معلوم ہو جائے
کہ کیسے اس کی راہوں میں
بچھائی جاتی ہیں آنکھیں
غرور و تمکنت کو کس طرح تعظیم دیتے ہیں
تمہیں معلوم ہو جائے
کہ بھوکے خانماں برباد لوگوں کا
لہو کیسے پیا جاتا ہے،۔
آ جانا! تمہیں کھانا کھلائیں گے
بتائیں گے، دکھائیں گے، سکھائیں گے
سکھائیں گے تمہیں، سب کچھ دکھائیں گے
کہ کیسے آج کے میدانِ کربل میں
تڑپتے، پیاس سے بے حال
ننھے منے بچوں کا
پسینہ منہ کا آتا ہے
سکھائیں گے قرینہ خون پینے کا
چھلکتے جام کا جلوہ دکھائیں گے
تمہیں ایسا،۔
کہ تم جانِ جو ِیں کا ذائقہ تک بھول جاؤ گے
تمہیں جو ناز ہے اپنی فقیری پر
یہ سارا خاک میں مل جائے گا اک دم!!۔
تمہیں ادراک ہو جائے
ہوا کے دوش پر
میری صدا میں کتنی قوت ہے
تمہیں احساس ہو جائے 
کہ تم نے مجھ کو پہچانا نہیں اب تک
مرے لفظوں، مری باتوں کے پیچھے کون طاقت ہے!۔
تمہیں معلوم ہوجائے، کہ کیسے 
میری راہوں میں بچھائی جاتی ہیں آنکھیں
غرور و تمکنت کو کس طرح تعظیم دیتے ہیں!۔

جواباً میں نے لکھا ہے:۔
مجھے معلوم ہے سب کچھ، مجھے معلوم ہے سب کچھ
تری باتوں، ترے لفظوں کے پیچھے کون طاقت ہے!۔
وہ طاقت، جو ہوا کے دوش پر پرواز کرتی ہے
مگر شاید تمہاری فکر بھی
ایسی ہوا کے دوش پر پرواز کرتی ہے
ہوا کے دوش پر، جو
اک جوئے کم آب سے بادل کا اک ٹکڑا چرا لائے
جو برسے یا نہ برسے کچھ نہیں ہوتا!۔
تمہارے شہر کی بے رحم سڑکوں پر
نمی ٹک ہی نہیں پاتی!۔
اِدھر! ۔
میرے رفیقوں کے دلوں میں وہ سمندر ہیں
کہ جو کوہ و بیاباں کی ہوا پر حکم رکھتے ہیں!۔
ہوا کو ساتھ لے کر
جھومتے بادل، ہوا بن کر
سمندر سے اٹھا کر آبِ حیواں
ہر نگر کو دان کرتے ہیں!۔
بڑا احسان کرتے ہیں
تمہارے شہر کی بے رحم سڑکوں پر
ندی نالے اگاتے ہیں
یہاں کے حبس پروردہ مکینوں کے
دلوں پر
دستکیں دے کر بتاتے ہیں:۔
ہوا کے دوش پر اُڑنا تو آساں ہے،۔
ہوا بننا نہیں آساں!!۔


۔  ۷؍ مئی ۱۹۹۶ء

No comments:

Post a Comment