غزل
ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے
اجنبی تھا راستہ اور چل دئے
شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے
ناتواں دل کو لیا اور چل دئے
کس قدر جلدی میں تھے اہلِ جنوں
راستہ پوچھا نہ تھا اور چل دئے
اہلِ محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دئے
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا، اور چل دئے
موت سے آگے بھی ہیں کچھ منزلیں
تھک گئے، سو دم لیا، اور چل دئے
زندگی کا کیا بھروسا جانِ جاں!۔
آ گیا امرِ قضا، اور چل دئے
۔ ۱۹؍ اگست ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment