غزل
نہ کوئی منزل نہ کوئی راہی، نہ راہبر ہے نہ راستہ ہے
جدھر کو جس جس کے جی میں آئی اسی طرف وہ نکل پڑا ہے
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
نہ نقشِ پا ہیں نہ بانگِ چنگ و درا کسی نے سنی ہے لیکن
یہ خاک سی کیسی اڑ رہی ہے کہ راستہ سارا اٹ گیا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
مرے رفیقوں کی پھول سی وہ نصیحتیں سب ہیں یاد مجھ کو
مگر یہ میرا قلم ہے آسیؔ، کہ لفظ کانٹے اگا رہا ہے
۔ ۲۹؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment