غزل
سنا ہے رات گہنایا قمر تھا
مگر سویا ہوا سارا نگر تھا
وہ کیا تھا، چیختے تھے سنگ ریزے
ابھی جس شہر میں میرا گزر تھا
مجھے ملنے وہ آئے تھے مرے ہاں
مگر میں سو رہا تھا، بے خبر تھا
یہ کس نے ابر کو آواز دے دی
ابھی تازہ مرا زخمِ جگر تھا
جو تنکے آج بکھرے ہیں گلی میں
چہکتی بولتی کا گھر تھا
وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسیؔ آئنے جیسا بشر تھا
۔ ۳؍ نومبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment