غزل
سپنے تو کجا دیکھئے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
کم مائیگیء حرفِ تشکر مجھے بتلا
یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟
جڑ سے تو اکھاڑیں گے چلو بوڑھے شجر کو
ننھا سا نہال اس کی جگہ بو بھی سکیں گے؟
ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم
کیا جانئے اس ہجر میں اب رو بھی سکیں گے؟
اک بار کا اظہار وہ صد خونِ انا تھا
اس داغِ تمنا کو کبھی دھو بھی سکیں گے؟
۔  ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۳ء
 
No comments:
Post a Comment