غزل
سرمئی شام ہی اتری ہے ابھی وادی میں
رات حائل ہے ابھی صبح کی تابانی میں
اپنے خوابوں کی یہاں خاک اڑی پھرتی ہے
کھو گئے فکر کے اوراق بھی اس آندھی میں
بھیڑ میں تازہ خداؤں کی ہوا میں بھی گم
میں ہی اک عام سا انسان تھا اس بستی میں
طعمہء اژدرِ ہر موجِ بلا وہ بھی ہوا
ہاتھ جس جس کا تھا اس ناؤ کی غرقابی میں
آگہی درد کا ساماں بھی ہے درماں بھی ہے
اثر آ جاتا ہے دیدوں کا بھی آگاہی میں
ظلمتو! میں نے ابھی ہار نہیں مانی ہے
ایک جگنو ابھی باقی ہے مری مٹھی میں
زندگی درد کا دریا ہی سہی پر، ہمدم
موج در موج بڑا لطف ہے پیراکی میں
۔ ۲۵؍ جنوری ۲۰۱۵ء
No comments:
Post a Comment