غزل
مسکرا کر دیکھئے تو اِک ذرا
دیکھئے تو آپ کا جاتا ہے کیا
مجھ سے لوہا مَس ہوا سونا ہوا
میں کہ پارس تھا سو پتھر ہی رہا
الحذر، نخچیرِ زلفِ عنبریں!
ایک بال آیا تو آئینہ گیا
آرزوئیں؟ بے قراری؟ کچھ نہیں؟
وہ جو تھا سیماب سا دل، کیا ہوا
جو نہ سہہ پائے عذابِ آگہی
اس کے حق میں بے خبر رہنا بھلا
راستے کی دھول تک باقی نہیں
کون جانے کیا ہوا وہ قافلہ
تشنگی کا رنگ چھوٹا ہے کبھی؟
آج تک ہے سرخ ریگِ کربلا
سانحوں میں کٹ گئی اپنی حیات
سانحہ در سانحہ در سانحہ
اپنے بچے کا کھلونا توڑ کر
اپنی محرومی کا بدلہ لے لیا
۔ ۴ ؍ اپریل ۲۰۱۵ء
No comments:
Post a Comment