Friday, March 15, 2019

ریزے: قطعات و فردیات ۱۹۸۵ء تا ۲۰۱۵ء

ریزے


۔  ۱۹۸۵ء
چھا جائے جو تاریکی تو کیا جانئے کیا ہو
بھٹکی ہیں اجالے میں کئی بار نگاہیں


۔  ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۵ء
غیر کے افکار ہیں میری زباں پر گرم رَو
میری سوچوں میں جو تھا اب بانکپن میرا نہیں
دل کا سودا مال سے اب اہلِ زر کرنے لگے
یہ حساب و کاروبارِ برہمن میرا نہیں
بازؤے حیدر تھا میں پر کٹ گیا بازو مرا
وہ چلن میرا تھا لیکن یہ چلن میرا نہیں
آبِ زمزم ڈالنے سے مے نہیں ہوتی حلال
میرے ساقی یہ شعارِ انجمن میرا نہیں


۔  ۹؍ دسمبر ۱۹۸۷ء
ق
انسان کے لہو سے نہاتے رہے یہود
زیبِ صلیب اہلِ حرم کر دئے گئے
مظلوم کی صدا کو دبایا گیا سدا
ظالم کو اور ہاتھ بہم کر دئے گئے
مجبوریوں کو دیتے ہوئے تیغ کی زباں
اہلِ قلم کے ہاتھ قلم کر دئے گئے


۔  ۹؍ دسمبر ۱۹۸۷ء
ق
تیشہء شوق عبث کند کیا پتھر پر
ایک قطرہ بھی نہ اس دِل سے لہو کا نکلا
جامہء قیس ہے کوئی کہ رگِ جانِ غریب
۔’’تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا‘‘۔


۔ ۸؍ مئی ۱۹۹۶ء
ق
عمر نے چہرے پہ صدیوں کی کہانی لکھ دی
زندگی ٹیڑھی لکیروں نے لکھی ہاتھوں پر
۔’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا‘‘ ساغر نے۔
زندگی گردشِ پیہم ہے کئی ہاتھوں میں


۔   ۹؍ دسمبر ۱۹۸۷ء
نامہ بر اُس کا گلی میں سے گزرتے دیکھا
اِس بہانے سے پھر اُس بزم میں جانا چاہوں


۔  ۱۴؍ ستمبر ۱۹۹۶ء
ق
اُس نے اظہارِ پشیمانی کیا بھی کیا خوب
اِک انا بولتی ہے اُس کی پشیمانی میں
شہر کے لوگ بھلا سوچ بھی کیا سکتے ہیں
یار بے کار گرفتار ہیں خوش فہمی میں


۔  ۱۲؍ جولائی ۱۹۹۶ء
ق
شجر تہذیبِ مشرق کا توانا ہو!۔
دساور کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
سرِ منبر تجھے دعویٰ ہے تقوے کا
ترے گھر کی فضا کچھ اور کہتی ہے


۔  ۲۹؍ ستمبر ۱۹۹۷ء
ق
آپ کرتے ہیں بات خوابوں کی
اور ہم نیند کو ترستے ہیں
اِک عجب سلسلہ شکست کا ہے
اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں


۔  ۱۶؍ جنوری ۱۹۹۹ء
ق
رنگ یوں لائے گی اپنی خود پرستی ایک دن
اجنبی بن جائے گی یہ ساری بستی ایک دن
دم بہ دم تبدیل ہوتا ہے مزاجِ ہست و بود
خاک میں مل جائے گا پندارِ ہستی ایک دن


۔  ۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۵ء
کیا جانے پھر جاگ اٹھے انسان کی عظمت
دہر میں جذبہء درد شناسی جاگ رہا ہے


۔  ۹؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
ہائے یہ حال اہلِ غزنی کا
شوکتِ روزِ سومنات گئی


۔  ۱۶؍ فروری  ۱۹۹۹ء
لوگ تو منہ میں زباں رکھتے ہیں نشتر جیسی
جانِ جاں تم تو مرے زخم کریدا نہ کرو
ق
دورِ آئندہ بڑا سخت بڑا مشکل ہے
میرے بچو مرے انداز میں سوچا نہ کرو
اپنی توقیر جو چاہو، کرو اپنی توقیر
خلعتِ غیر کی زنہار تمنا نہ کرو


۔  ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء
بیلے میں اب چُوری لے کر آئے کون
دفتر میں جا بیٹھیں ہیریں بھی اپنی


۔  ۱۴؍ فروری  ۲۰۰۶ء
ق
نام کوئی بھی مجھے دینے سے پہلے سوچ لیں
آپ کی پہچان بھی اس نام سے مشروط ہے
کیجئے اظہارِ بیزاری بھی مجھ سے اس قدر
آپ کا مجھ سے تعلق جس قدر مضبوط ہے


۔  ۲۳؍  فروری ۲۰۰۶ء
ق
بات کرنا ہو ناگوار جنہیں
اُن سے کس مدعا کی بات کریں
میرے بیمار دل کو رہنے دیں
آپ اپنی انا کی بات کریں


۔  ۶؍ ستمبر ۲۰۱۲ء
چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے


۔  ۱۰؍ فروری  ۲۰۱۴ء
ق
وقت کے مرہم پہ آخر اعتبار آ ہی گیا
اس دلِ بے تاب کو کچھ کچھ قرار آ ہی گیا
شدتِ فصلِ خزاں میں کچھ کمی آہی گئی
شاخِ یابس میں فشارِ نو بہار آ ہی گیا


۔  ۱۶؍ اگست ۲۰۱۴ء 
ایک لمحہ خوبصورت آنکھ کی پتلی میں قید
اک ہنسی سارے جہاں کے غم اڑا کر لے گئی
جو اہلِ فکر و نظر ہیں وہ جان جائیں گے
کہ اپنی ایک روایت ہے رُودِ راوی کی
نہ کاٹو، اس شجر کو میرے بھائی
پرندے بھی ٹھکانا چاہتے ہیں


۔  ۱۶ ؍اگست ۲۰۱۴ء
غزل کی زلفِ پریشاں سنور نہیں سکتی
یہ ہو رہے تو غزل ہی غزل نہ رہ پائے


۔  ۲۶ ستمبر ۲۰۱۴ء
کتاب ہو کھلی ہوئی، گلاب ہو کھِلا ہوا
اور اس پہ حکم ہو کہ اس طرف نہ جھانکئے کوئی


۔  ۳۰ اکتوبر ۲۰۱۴ء
وہ جس کی بات پیامِ حیات ہوتی تھی
بس ایک بات ہوئی اور مر گیا اک شخص


۔  ۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
ق
وا، تہی دامنی تری اے دل
درد آنکھوں سے بہہ گیا سارا
یہ جو ارزاں ہوا ہے میرا لہو
ہے یہ میرا کیا دھرا سارا


۔   ۲۰ جنوری ۲۰۱۵ء
ق
بارے سایوں کا بیاں ہو جاوے
اک ڈراوے تو ایک بہلاوے
ایک خناس چمٹنے والا
ایک بابا کی دعا کا ہالہ

۔۔۔۔۔۔



No comments:

Post a Comment