حرفِ اَلِف
علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں
کہ میں تاجر ہوں لفظوں کا
قلم کو میں نے پابندِ سلاسل کر دیا ہے
حرمت و تقدیسِ الفاظ و معانی
میں نے بیچی ہے
جسے چاہو بتا دو اور جو چاہو سزا دے لو
مگر پہلے
خریدارانِ تقدیسِ قلم کے نام تو سن لو!
سبھی ناموں سے پہلا نام ہے
اس اول و آخر، خدا وندِ دو عالم کا
کہ ہر تقدیس، ہر تعریف، ہر تسبیح کے لائق
اسی کی ذاتِ اقدس ہے
اسی نے مجھ کو بخشی ہے یہ دولت
جس کے حق میں اس نے فرمایا
کہ ’’پڑھ،۔
تیرا خدا تکریم کے اعلیٰ تریں منصب پہ فائز ہے
وہ جس نے دولتِ تحریر بخشی اپنے بندوں کو
پھر اس سے علم کی قوت عطا کی ناتوانوں کو‘‘
اگر سارے قلم
قرنوں
لکھیں تسبیح ربانی
تو بھی ممکن نہیں
حرفِ الف کی شرح لکھ پائیں
عطا کر کے کتابِ معرفت
اس نے نوازا، عزت و توقیر سے
حرفوں کو، لفظوں کو
قلم بخشا، زباں بخشی
حیاتِ جاوداں بخشی
مرے لفظوں کی حرمت کے خریداروں میں شامل ہے
صدائے نغمہ ریز
ان بچیوں کی، جو یہ کہتی تھیں:۔
۔’’وہ دیکھو!۔
پار اُن ٹیلوں کے ہوتا ہے طلوعِ بدر
تم سارے دعا مانگو!
خدا کا شکر واجب ہے‘‘۔
وہ کہتی تھیں کہ ’’ہم ہیں
بیٹیاں نجار کے کنبے کی
باعث ہے مسرت کا
کہ انسانوں کا محسن
آدمیت کے تقدس کا پیمبر ﷺ
ہو گا، ہمسایہ ہمارا،
تم دعا مانگو!‘‘۔
پیامِ انبساط و سرخوشی تھا
اہلِ یثرب کے لئے یہ گیت
جو، اَب ہے
مری عزت کا باعث
اور میرے حرف سارے
اس حبیب ِ کبریا کے بابِ عزت پر
کھڑے ہیں
دست بستہ، بے زباں، بے جرأتِ اظہار
حاشا!۔
کوئی گستاخی نہ ہو جائے!
جوانوں کے دلوں کی دھڑکنیں
دم ساز بوڑھوں کی
محبت کرنے والی بیبیاں
وہ سیپ ہیں
آغوش میں جن کی
گہر بنتے ہیں قطروں سے
جہاں کل کے مشاہیر اور دانشور
مفکر اور اہلِ علم و فن
قلقاریاں کرتے ہیں، اٹھلاتے ، مچلتے ہیں
مرے بچے، مری آنکھیں
مرے بھائی، مرے بازو
مری دھرتی کے سب آہن بدن مزدور،
دہقان اور کاری گر،۔
مری امید کے مرکز سے وابستہ
سبھی فنکار،
حرف و صوت،۔
رنگ و سنگ،۔
تحریر و قلم کی آبرو کے پاسباں سارے
مری ہستی، مری سوچیں،۔
قلم میرا، مری تحریر
ان سب کی امانت ہے
قلم، قرطاس، فکر و فہم
جو کچھ پاس ہے میرے
وہ ان سب کی عنایت ہے
میں لکھتا ہوں
انہی کے واسطے
مجھ کو چکانا ہے یہ سارا قرض
اور اپنے قلم کی حرمت و توقیر کا بھی پاس رکھناہے
مگر اک فکر لاحق ہے
بڑے مشکل مراحل ہیں
گزرگاہِ محبت میں
بڑی صبر آزما گھڑیاں
یہاں پیش آیا کرتی ہیں!
تو پھر ایسے میں
کیا حق ِ قلم ہو گا ادا مجھ سے؟
یہی اک فکر دامن گیر ہے کب سے!
علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں!!۔
۔ ۱۳؍ اگست ۱۹۸۶ء
No comments:
Post a Comment