غزل
غبارِ جاں میں چھپ جاتا ہے گردوں
اگر آنکھوں کو اشکوں سے نہ دھوؤں
دِلِ خارا بھی پتھر ہو چکا ہے
کہاں سے آنکھ میں اترے جوئے خوں
مرے لہجے میں دریا بولتا تھا
اب آبِ حرف کو ترسا ہوا ہوں
مفاصل کی، نہ کچھ اعضاء کی پروا
کچھ اپنے آپ میں کھویا گیا یُوں
بدل جائیں گے لفظوں کے معانی
نظر کا زاویہ کس طور بدلوں
رگوں میں برف سی جمنے لگی ہے
تمازت ہو تو چہرے کو اجالوں
ہوا بھی سمت کھو بیٹھی ہے اب تو
بسا حسرت! رُخِ دریا بھی دیکھوں
مجھے قطرہ بھی طوفاں لگ رہا ہے
تو کیا میں تشنگی میں ڈوب جاؤں؟
حجازی دم میں کوئی دم نہیں ہے
سو، اب چنگیز کیا اور کیا فریدوں
حدیثِ دل بیاں کر دی ہے میں نے
پہ ہیں خاموش دنیا کے فلاطوں
یہ میرا آئنہ خانہ ہے آسیؔ
یہاں کوئی نہیں، بس میں ہی میں ہوں
۔۳۰ ۔جنوری ۲۰۱۹ء
No comments:
Post a Comment