دشمن کے نام
مجھے تیری ضرورت ہے، تجھے میری ضرورت ہے
کہ اک بے نام رشتہ ہے ہمارے درمیاں قائم
نہ کوئی عہدِ الفت ہے نہ قسمیں ہیں وفاؤں کی
نہ شکوہ ہے جدائی کا، نہ ملنے کی کوئی خواہش
تمہارا ذکر چل نکلے تو پھر چلتا ہے پہروں تک
مگر دل میں کوئی دھڑکن، کوئی نفرت نہیں اٹھتی
کبھی تم یاد آ جاؤ تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے راستے میں کوئی سنگِ میل دیکھا ہو
مگر اس پر لکھے الفاظ پڑھنے کو نہ جی چاہے
کہ رستے میں ابھی کتنے ہی پتھر اور آئیں گے
تو کیا ان سب کو پڑھنے کے لئے رکنا ضروری ہے؟
نہیں شاید! کہ پتھر تو کوئی جذبہ نہیں رکھتے
کبھی میں سوچتا ہوں مختلف میں بھی نہیں تم سے
میں سنگِ میل ہوں جیسے نگاہوں میں تمہاری بھی
وہی اک سرد سی ناواقفیت دیکھ کر اکثر
گماں ہوتا ہے جیسے تیرگی میں ایک آئینہ
خلا میں اک صدائے ناشنیدہ ہو گیا ہے تو
یہی میری بھی کیفیت ہے، میں تسلیم کرتا ہوں
تو پھر ایسے میں تجھ سے دوستی کیا دشمنی کیا ہو؟
نہ جانے پھر بھی کیوں میں سوچتا ہوں اس طرح جیسے
کہ اک بے نام رشتہ ہے ہمارے درمیاں قائم
۔’’تجھے میری ضرورت ہے، مجھے تیری ضرورت ہے‘‘۔
۔ ۱۳؍ اگست ۱۹۸۶ء
No comments:
Post a Comment