Friday, March 15, 2019

نظم: خود کلامی

خود کلامی




اے مرے ہم نفس۔
اے مرے ہم نشیں!۔
آؤ  باتیں کریں
شہرِ کم گوش کی گم شدہ زندگی
کہنہ تہذیب کے ہر کھنڈرمیں پڑے
پتھروں  میں کہیں
کوئی پوری توجہ سے
 بے صوت نوحے کو سننے کی زحمت کرے
یہ تو ممکن نہیں
اور میری صدا
پتھروں میں سماعت جگانے کی
بے کار کوشش میں ہے
سنگ تو سنگ ہے، آرسی تو نہیں
جو مجھے 
میرے لرزاں لبوں کا
کوئی عکس ہی دے سکے
ہاں، ستم یہ بھی
آرسی کی صداقت سے خائف ہوں میں
کیوں؟ ـــــ۔۔۔۔۔۔ کہ بے رحم سچ 
کون سہہ پائے گا!
کل سویرے مجھے
اپنی بیٹھک کے آئینے میں
عکس اپنا دکھائی دیا  ۔۔۔۔۔
بے وجودی پہ اس کی
نگاہیں مری
طنز کے تیر لے کر
ہوئیں حملہ آور ۔۔۔
مرے عکس نے
یوں مری سمت نظریں بڑھائیں
کہ وہ میری کم مائیگی پر
تمسخر کا جیسے نشانہ بنانے لگا ہو مجھے
پھر تو گھبرا کے
مجھ کو نگاہیں چراتے بنی!۔
کیا کہا؟
اپنی ہستی سے ڈرتا ہوں میں؟
ہاں، یہی بات ہے
اور اس عالمِ خوف میں
میرا جی چاہتا ہے
کہ ہم مل کے بیٹھیں ذرا دیر کو
اور باتیں کریں
آؤ باتیں کریں
کچھ کہو تو سہی چاہے کچھ بھی کہو
اپنی  باتیں کرو
میری باتیں کرو
کیا تمہیں خوف ہے
کہ مری ذات بھی
آرسی ہو گئی ہے؟
نہیں، ایسا ہرگز نہیں،۔
ہم نشیں! ہم نفس!۔
میں تمہارے تنفس کی گرمی کو
محسوس کرتا ہوں
سانسوں کی آواز کو
دل کی دھڑکن کو
سنتا ہوں!۔
نظروں کی بجلی سے احساس لے کر
گزر گاہِ الفت میں
چاند اور تارے بچھاتا چلا جا رہا ہوں،
 مرے ہم سفر!۔
ہم قرینہ محبت کا
اک دوسرے کو سکھا دیں اگر
تو بڑی بات ہے

قفل دل کے، سنا ہے،۔
کلیدِ نظر سے، کلیدِ تکلم سے
کھل جاتے ہیں
خامشی ہی سہی
یوں نگاہوں نگاہوں میں ہی
تم مجھے کچھ کہو
میں تمہیں کچھ کہوں
اور یوں رات ڈھلتی ہوئی
اپنے انجام کی سمت بڑھتی رہے
پھر نئے دن کا سورج
ہماری نگاہوں سے
کچھ روشنی لے کے
مخمور چڑیوں کو آہستہ آہستہ بیدار کر دے
انہیں، میرے جذبوں کی چہکار سے
یوں شناسا کرے
کہ  ۔۔۔۔  مجھے تم کہو
آؤ باتیں کریں!۔
اور باتیں کریں!۔



۔  ۲۸؍ جنوری ۱۹۸۸ء

No comments:

Post a Comment