لکھنے سے پہلے
مجھ کو اظہارِ جذبِ دروں کے لئے
لفظ درکار ہیں
لفظ وہ
جو تخیل کو نوکِ قلم سے شناسا کریں
اور کچھ اس طرح
کہ مرے خون کی
دم بہ دم مے دَوَم مے رَوَم
کہتی موجوں کی بے چینیوں کو
مرے پڑھنے والے کے ادراک پر
منکشف کر سکیں
ایسے الفاظ
میری رسائی میں اب تک تو آئے نہیں
پھر میں لکھوں تو کیا؟
سوچتا ہوں
یونہی عمر کٹ جائے گی؟
اور میرا تخیل
مرے ساتھ ہی دفن ہو جائے گا؟
پھر مری ضربتِ دل، مری گردشِ خوں
اسی سوچ میں
تیز سے تیز تر، تیز تر ہوتی جاتی ہے
اور میرے الفاظ سے
حسنِ ترسیلِ جذبِ بے سکوں
غیر ممکن بھی ہے
نا مکمل بھی ہے
مجھ کو اظہارِ جذبِ دروں کے لئے
نطق درکار ہے
نطق درکار ہے، لفظ درکار ہیں!۔
۔ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۸۸ء
No comments:
Post a Comment