اَن کہی داستاں
اور پھر یوں ہوا
نم زدہ رات کی
آخری ساعتوں کے جلو میں کہیں
ان کہی داستاں
اپنے کردار سارے جبیں پر سجائے
مری سوچ کی بے کراں وسعتوں میں
کسی شہرِ بے نام کی
اک کہانی بدن پر لپیٹے ہوئے
مجھ پہ نازل ہوئی اور کہنے لگی:۔
تم اگر واقعی ایک فن کا ہو
تو مجھے بھی لکھو
میری سب چاشنی
سب نشیب و فراز
اپنے لفظوں کی قوت سے پیدا کرو
مجھ کو وہ روپ دو
جس میں ہر اک کا غم اور خوشیاں
محبت کے نغمے، محبت کا ماتم
گل و بلبل و عارض و لب کے قصے
خرامِ بلا خیز و ناز و ادائے کمالِ ستم
اور قامت قیامت کی ساری مثالیں ملیں
ایک رانی بھی ہو، ایک راجا بھی ہو
اُن کی بیٹی بھی ہو، اُن کا بیٹا بھی ہو
ایک شہزادۂ خوبرو، نوجواں
زیرک و صاحبِ نیروے بے بدل
ایک شہزادیٔ گل بدن
سب کو باہم کرو
اور ہاں! داستاں کا تقاضا
فقط لذّتِ گوش سمجھو
تو یہ حرمتِ حرف و معنی کو
پامال کرنے کے مصداق ہے
یاد رکھو اگر، تم مجھے لکھ نہ پاؤ
تو اپنا قلم توڑ دو، پھینک دو
تب سے میں سوچتا ہوں، مسلسل
کہ اپنی کہانی لکھوں
اور ساری لکھوں
ہاں! مری داستاں میں
عناصر سبھی ہیں میسر مگر
میں وہ فن کار ہوں
جس میں سچ بولنے کابھی یارا نہیں
پھر میں لکھوں تو کیا؟
کیا قلم توڑ دوں؟
۔ ۹؍ جون ۱۹۸۹ء
No comments:
Post a Comment