دن سے بڑھ کر ہے شب
قدر کی رات میں آدمی کے لئے
حق نے نازل کیا نسخۂ کیمیا
اور اس میں لکھا
قدر کی رات ہے نعمتِ بے بہا
اس میں پنہاں اشارے کو سمجھو ذرا
قدر کی رات ہے
دن سے بڑھ کر ہے شب
استعارہ کہ جب
رات ڈھلنے لگے
اور مشرق کی جانب سے اٹھتا ہوا
روشنی کا سمندر ہر اک چیز کو
یوں منور کرے
کہ میں خود سے کہوں
کیا یہیں ہے کہیں منبع ِ روشنی
چاندنی بھی نہیں تیرگی بھی نہیں
پھر ہے کیا ماجرا
روشنی میں نہائی ہوئی ہے
ہر اک چیز یوں کس طرح
نورہی نور ہے
میرے سینے کے غارِ حرا سے اٹھا ہے
یہ سیلِ منور بھلا!۔
نور ہی نور ہے
دن سے بڑھ کر ہے شب
قدر کی رات ہے!۔
۔ ۶؍ ستمبر ۱۹۸۹ء
No comments:
Post a Comment