صدا کر چلے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیقوں سے ناراض کیسے رہوں گا
رہوں گا بھی تو کیا کسی سے کہوں گا
مری عمر بھر سے یہ عادت بنی ہے
جہاں بھی کوئی بزمِ یاراں سجی ہے
کبھی میں نے خود کو ابھارا نہیں ہے
ابھاروں بھی کیا اس کا یارا نہیں ہے
مرے دوست گرچہ مکرم ہیں مجھ کو
اصول اور ضوابط مقدم ہیں مجھ کو
رعایت رعایت ہے، بنیاد کب ہے
اصولوں سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی شے
اصولوں سے کوئی جو منہ موڑتا ہے
نہ جانے وہ کتنوں کے دل توڑتا ہے
رہی بات ’’میں یہ ہوں‘‘، بے کار ہے یہ
رگِ زیست کے حق میں تلوار ہے یہ
زباں تو زبان ہے کوئی جیسے بولے
کوئی جس طرح اپنے بولے کو تولے
جو وُوں بولنا ہے تو چُپکے بھلے ہم
فقیرانہ آئے صدا کر چلے ”ہم“۔
۔۱۸ ۔ فروری ۲۰۱۳ء
No comments:
Post a Comment