Thursday, March 14, 2019

نظم: ہوا جب تیز چلتی ہے


ہوا جب تیز چلتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوا جب تیز چلتی ہے
تو یادوں کے فلک سے
جیسے شبنم سی اترتی ہے
ان آنکھوں میں
نمی سی جھلملاتی ہے
مرے اندر کہیں اک ابر کا ٹکڑا لرزتا ہے
تو بجلی اس کی بانہوں سے 
تڑپ کر یوں نکلتی ہے
کہ جیسے اس کو میرے دل پہ گرنا تھا
جو گرنا تھا تو گر جائے
ابھی اشکوں کے کچھ موتی درخشاں ہیں
سو، وہ بھی جان لے!
دُر دانہ ہائے دل فگاراں کی
چمک کے سامنے برقِ تپاں جیسے 
دھواں ہے اور کچھ بھی تو نہیں ہے!
دھواں بھی کیا!!
ہوا جب تیز چلتی ہے
تو اس کی کچھ خبر ملتی نہیں 
وہ کیا ہوا؟ آیا کہاں سے تھا؟
مگر محسوس ہوتا ہے کئی دن سے
نظر کے سامنے اک دھند کی چادر تنی ہے
حبس جیسی کیفیت میں
آہ کے جھکڑ سے چلتے ہیں
ترشح ہونے لگتا ہے
میں آنکھیں موند لیتا ہوں

۔۶۔دسمبر ۲۰۱۵ء

No comments:

Post a Comment