غزل
ہر اک دل میں دردِ جدائی آن بسا ہے
گاؤں میں کوئی بیراگی آن بسا ہے
جھانک رہا ہے آنکھوں سے اندیشہء فردا
چہروں پر کربِ آگاہی آن بسا ہے
کرچی کرچی ہوتا جاتا ہوں اندر سے
اِس بت خانے میں اک صوفی آن بسا ہے
وقت نے ایک عجب انداز میں کروٹ لی ہے
فردا کی بستی میں ماضی آن بسا ہے
میری اکثر باتیں سچی ہو جاتی ہیں
میرے اندر کوئی جوگی آن بسا ہے
آسیؔ جی خاموشی آپ کی ٹوٹی کیسے؟
گوشہء جاں میں ہجر کا پنچھی آن بسا ہے؟
۔ ۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۵ء
No comments:
Post a Comment