Friday, March 15, 2019

نظم: ۱۴ ۔ اگست۔

۔ ۱۴؍ اگست ۔



آباد سرزمینِ وطن جاوداں رہے
میری دعا ہے اِس پہ خدا مہرباں رہے

میرا تو گھر ہے پھر نہ مجھے کیوں عزیز ہو
قائم رہے مدام، رہے یا نہ جاں رہے

بچوں کو ایک گوشۂ مامون دے گئے
میرے بزرگ عمر بھر بے خانماں رہے

کچھ آندھیاں بھی توڑ گئیں ٹہنیاں، بجا
پر کتنے ہوشیار مرے باغباں رہے

منزل مرے نصیب میں ہوتی تو کس طرح
صحراؤں میں بھٹکتے مرے سارباں رہے

اللہ کا کرم ہے عزیزو، وگرنہ ہم
اپنے ہی آشیاں کے لئے بجلیاں رہے

چودہ اگست! میں تجھے اب پیش کیا کروں
وہ جذبِ اندروں کے تلاطم کہاں رہے

اے ارضِ پاک تیرے ستاروں کی خیر ہو
قائم سدا یہ نور بھری کہکشاں رہے


۔  ۷؍ اگست ۱۹۸۵ء

No comments:

Post a Comment