Friday, March 15, 2019

مجھے اک نظم کہنی ہے

مجھے اک نظم کہنی ہے



مجھے اک نظم کہنی ہے
فقط اک نظم کہنی ہے
اک ایسی نظم جس میں داستاں تصویر ہو جائے
وہ کل کی بات تھی
زنجیر کرتے تھے صداؤں کو
سزائے حبس دیتے تھے
بہاروں کی ہواؤں کو
پرندوں کو
سنہری دام و دانہ سے لبھاتے تھے
جو اُڑنا چاہتا،۔
وہ پر بریدہ کر دیا جاتا

وہ میرِ کارواں
رستے میں کہتا تھا کہ رک جاؤ
ابھی آگے نہ جاؤ
سینکڑوں خطرات ہیں آگے
وہ کل کی بات تھی

وہ صرف اپنی بات کہتا تھا
مجھے کل تک فقط خاموش رہنے کی اجازت تھی
وہ کہتا تھا
ابھی تم روشنی کی سمت مت جانا
ابھی آنکھیں تمہاری
روشنی کی تاب لا پائیں نہ شاید
اس لئے
کچھ دن ابھی
تاریکیوں میں گر  رہو، بہتر
مگر یہ آج کے دن میں
عجب افسوں طرازی ہے
کہ سرگرداں ہوائیں ہیں
نسیمِ صبح تو ایسی نہیں ہوتی!۔
بگولے جس طرح اٹھ کر
کسی صحرا سے آئے ہوں
مجھے، ایسے میں
اپنے پارچوں کو سینت کر رکھنا بھی مشکل ہے

اندھیری رات کا افسوں
ابھی ٹوٹا نہیں ہے
اور مجھ کو
روشنی سے خوف سا آنے لگا ہے
میں پریشاں ہوں
نہ جانے روشنی میں کتنی شدت ہو
مجھے رنگین چشمے کی ضرورت پڑ گئی تو پھر؟
مجھے ہر چیز اس چشمے کی رنگت کی دکھائی دے اگر
 تو پھر کسی سے میں یہ کیسے کہہ سکوں گا :۔
یہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں
رنگ اس کے سب حقیقی ہیں!

عجب منظر ہے رستے کا
کہ ہر اک شخص
دوڑا جا رہا تو ہے،
مگر کس سمت؟
شاید ہی کسی کو علم ہو
کہ کون سی منزل ہماری ہے
یہ کیسی روشنی ہے کہ
سرابوں نے حقیقت کے نقابوں کا
سہارا لے لیا ہے
اور میں
مانگے کی عینک سے
دکھائی دے رہے رستے پہ
دوڑا جا رہا ہوں
بولتا جاتا ہوں، لیکن
یہ مجھے کوئی نہیں کہتا
کہ چپ ہو جا!۔
کہے کیسے؟
کہ ایسے میں کسی کی کون سنتا ہے!

مرے دل میں
تمنائے فضا پیمائی زندہ تھی
تو میرے پر شکستہ تھے
مگر اب، بال و پر دے کر
مرے صیاد نے بے جان کر دی ہے
فضا میں تیرنے کی وہ تمنا
جو کبھی منہ زور ہوتی تھی
مجھے بے چین رکھتی تھی
مجھے اب کچھ نہیں پروا
کہ میں قیدِ قفس میں ہوں
کہ نیلے آسماں کی
بے کراں وسعت میں اُڑتا ہوں

سحر سے کوئی جا کر یہ کہو
تیرہ نصیبوں کے جہاں میں
آ تو جائے وہ،۔
مگر آہستہ آہستہ

مرے صیاد!۔
مجھ کو وہ شکستہ پر مرے دے دے
مجھے لَوٹا!۔
فضا میں تیرنے کی وہ تمنا
جو کبھی منہ زور ہوتی تھی
مجھے بے چین رکھتی تھی

ابھی مجھ کو ضرورت ہے
اسی دھڑکے کی
جو آزاد پنچھی کو کسی صیاد کے
 بے سمت بھٹکے تیر سے ہشیار رکھے
جال سے بچنے پہ اکسائے

جو منقارِ قلم کو
ریشۂ قرطاس پر پیہم رواں رکھے
مرے افکار ہی جامد ہو نہ جائیں
مجھے اک نظم کہنی ہے
فقط اک نظم کہنی ہے
اک ایسی نظم
جس میں داستاں تصویر ہو جائے!۔


۔  ۳؍ جنوری   ۱۹۹۰ء

No comments:

Post a Comment