غزل
بزمِ انجم تھی کہ میرا دیدۂ حیران کل
بھا گیا دل کو مرے سادہ سا اک مہمان کل
میری بچی بھولپن میں بات ایسی کہہ گئی
مجھ کو یاد آئیں بڑی شدت سے اماں جان کل
اس مشینی دور کو اک اور آدم چاہئے
ہاتھ میں انسان کے جوں ہو گیا انسان کل
آج میرے ایک واقف کار نے مجھ سے کہا
نام تیرا بن نہ جائے جنگ کا اعلان کل
وائے یہ خوابیدگی، تیرہ شبی، درماندگی
یہ تو ٹوٹے، دیکھ لیں گے صبحِ چمنستان کل
آس کا دامن نہ چھوڑو یار آسیؔ، دیکھنا
مشکلیں جو آج ہیں ہو جائیں گی آسان کل
۔ ۲۲؍نومبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment