Friday, March 15, 2019

غزل: کسی کو عشق نے کوئے بتاں میں ڈال دیا

غزل

کسی کو عشق نے کوئے بتاں میں ڈال دیا
کسی کو عقل نے وہم و گماں میں ڈال دیا

کسی کی دید نے جادو جگا دئے کیا کیا
جمال و حسنِ بہاراں خزاں میں ڈال دیا

خدا کے پیشِ نظر تھی حفاظتِ آدم
زمیں کو لے کے کفِ آسماں میں ڈال دیا

امیر سے کوئی پوچھے تو، کس لئے اس نے
سفر کا خوف دلِ کارواں میں ڈال دیا

چلے تو پیشِ نظر تھا سلامتی کا جہاں
سوادِ رہ نے کوئے بے اماں میں ڈال دیا

ترے خیال نے لفظوں کا روپ کیا دھارا
بلا کا سوز لبِ نغمہ خواں میں ڈال دیا

ہماری فکر کی تاریکیوں کا پرتو ہے
جو دستِ چرخ نے سیارگاں میں ڈال دیا

مرے کہے پہ کہ بہتر ہے آزما لینا
۔’’مجھی کو اس نے کڑے امتحاں میں ڈال دیا‘‘۔



۔  ۱۲؍ اگست ۱۹۹۹ء

No comments:

Post a Comment