غزل
خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے
کتنے تاروں پہ قیامت ٹوٹی
اپنا دامن جو نچوڑا میں نے
وہ تو اُس شام سرِ شہرپنہ
شہر کا درد لکھا تھا میں نے
رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے
یوں ہی اک عالمِ مجبوری میں
جبر کو جبر کہا تھا میں نے
لے کے پلکوں سے ستارے ٹانکے
قریہء جاں کو اجالا میں نے
فکر بے نطق ملی تھی مجھ کو
اس کو لہجے سے نوازا میں نے
یکم جنوری ۱۹۹۹ء
No comments:
Post a Comment