Friday, March 15, 2019

غزل: پلکوں پر برسات اٹھائے پھرتا ہے

غزل

پلکوں پر برسات اٹھائے پھرتا ہے
دل بھی کیا سوغات اٹھائے پھرتا ہے

ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دے کیسے
پیرِ حرم سکرات اٹھائے پھرتا ہے

جس میں آنکھ اٹھانے کی بھی تاب نہیں
کندھوں پر دن رات اٹھائے پھرتا ہے

جس کا ماس اڑایا چیلوں کوّوں نے
مردہ ہاتھ نبات اٹھائے پھرتا ہے

میرا دشمن کرتا ہے تشہیر مری
میری اک اک بات اٹھائے پھرتا ہے

اب کی بار وہ ہار سے یوں دو چار ہوا
سر پر دونوں ہاتھ اٹھائے پھرتا ہے

چاند ستارے اک مدت سے ماند ہوئے
۔’’جگنو سر پر رات اٹھائے پھرتا ہے‘‘۔


۔  ۲۲؍ دسمبر ۱۹۹۸ء

No comments:

Post a Comment