غزل
اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر
خاشاک کا نمرود فنا ہو کے رہے گا
آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا
اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا
اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے
سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا
پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے
کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا
وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا
اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا
لکھنا ہے مجھے نوحہء برگِ گل یابس
۔’’یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا‘‘۔
۔ ۲۲؍ اگست ۱۹۸۸ء
No comments:
Post a Comment