Friday, March 15, 2019

غزل: ابھی نظر کے بچھائے ہوئے سراب میں ہوں

غزل

ابھی نظر کے بچھائے ہوئے سراب میں ہوں
سفر نصیب، مگر منزلوں کے خواب میں ہوں

بسیط قلزمِ ہستی سہی مگر میں تو
انا کی قید میں ہوں، ذات کے حباب میں ہوں

ترے دلائل و منطق پہ گنگ فرزانے
میں ایک شاعرِ دیوانہ کس حساب میں ہوں

فقیہِ شہر! مرا اصل مسئلہ یہ ہے
کسی سوال میں شامل نہ میں جواب میں ہوں

پڑا جو دستِ ستم گر، تو خون اگلے گا
مثالِ خار چھپا پردۂ گلاب میں ہوں

سروں کی خیر مناؤ، دراز قد لوگو!
وہ سنگ ہوں کہ نہاں سرمئی سحاب میں ہوں

خدائے عرش، مرے حال پر کرم فرما
نماز پڑھ کے بھی الجھا ہوا ثواب میں ہوں


۔  ۱۲؍ فروری ۱۹۸۷ء


No comments:

Post a Comment