غزل
تیرگی میں سجھائی کیا دے گا
روشنی کے پیام کیا کیا تھے
میں اسے دیکھتا تھا، وہ مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا تھے
لوگ پہچانتے نہیں اب تو
آپ تھے تو سلام کیا کیا تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا تھے
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
جو ستارے بجھا دئے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا تھے
۔ ۳؍ مارچ ۱۹۸۷ء
No comments:
Post a Comment