غزل
اے میری آرزوؤں کے صیاد، سوچ لے
دم سے انہی کے تیری ہے بیداد، سوچ لے
تجھ کو نہیں فغاں سے اگر آج واسطہ
کوئی سنے گا تیری نہ فریاد، سوچ لے
تیری نگہ نے بھی نہ وفا کی گواہی دی
باتیں بھی ہیں مرقعء اضداد، سوچ لے
بازو پہ جس کو اپنے بھروسا نہ ہو اسے
ملتی نہیں کہیں سے بھی امداد، سوچ لے
خود نہر کا وجود بھی شیریں جمال ہے
اتنا ہی، میرے دور کا فرہاد سوچ لے
۔ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۷ء
No comments:
Post a Comment