غزل
پنجہء زغ تیز تر، اس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اس شہر کی آب و ہوا سے
شور مٹی، زہر پانی اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اس شہر کی آب و ہوا سے
توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اس شہر کی آب و ہوا سے
دن تو اپنا ایسے تیسے بِیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اس شہر کی آب و ہوا سے
عقل والوں نے غلامی کی نئی دستار پہنی
ہم بچا لے جائیں سر، اس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جائوں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے
یہ ثمود و عاد کی بستی ہے، یاں سے چل نکل جا
دوڑ کر آسیؔ گزر، اس شہر کی آب و ہوا سے
۔ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment