غزل
آؤ کچھ ذکرِ روزگار کریں
دورِ حاضر کے غم شمار کریں
ہیں بہت بار شانہء جاں پر
آرزوئیں کہاں سوار کریں
آپ نقصان سہہ نہ پائیں گے
آپ دل کا نہ کاروبار کریں
ہم سے تو بے رخی نہیں ہوتی
جو بھی چاہیں ہمارے یار کریں
آبلہ پا پیام چھوڑ گئے
لوگ نظارۂ بہار کریں
ہے تقاضائے غیرتِ امروز
زورِ بازو پہ انحصار کریں
کچھ تو فرمائیے کہ آسیؔ جی
کیا کریں، کس پہ اعتبار کریں
۔ ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment