Friday, March 15, 2019

غزل: کتنی لمبی ہیں راتیں

غزل

کتنی لمبی ہیں راتیں
ایسی ہوتی ہیں راتیں!۔

جب سے کوئی بِچھڑا ہے
جیسے ڈستی ہیں راتیں

کیسے کیسے اَن ہونے
خواب دکھاتی ہیں راتیں

سورج دن کو ہوتا ہے
اَور جھلستی ہیں راتیں

پورا ہے گو چاند مگر
کالی کالی ہیں راتیں

کیسے کیسے کس کس کے
عیب چھپاتی ہیں راتیں

شمس و قمر کی اَور اپنی
یکساں گزری ہیں راتیں

جھوٹ افق نے بولا ہے
جانے والی ہیں؟ راتیں

دن کی بات کرو یارو
سہمی سہمی ہیں راتیں

آسیؔ اور کہے بھی کیا
کٹتی جاتی ہیں راتیں


۔  ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۸۵ء

No comments:

Post a Comment