غزل
ہم رہیں برسرِپیکار، ضروری تو نہیں
ہاں، تماشائی ہوں اغیار، ضروری تو نہیں
گر مرے ساتھ چلیں تو بھی عنایت ہو گی
آپ کا ساتھ بھی، سرکار! ضروری تو نہیں
آپ کے طرزِ تکلم سے عیاں ہے سب کچھ
صاف لفظوں میں ہو اظہار، ضروری تو نہیں
آج ہم خود بھی شہادت پہ تلے بیٹھے ہیں
آپ کے ہاتھ میں تلوار ضروری تو نہیں
نقدِ جاں لے کے درِ یار پہ جانا ہو گا!
حسن پہنچے سرِبازار، ضروری تو نہیں
دن چڑھے گا تو امیدوں کا سماں دیکھیں گے
ہو مگر سر بھی شبِ تار، ضروری تو نہیں
وہ تو اک عام سا شاعر ہے تمہارا آسیؔ
اس کا ہر شعر ہو شہکار! ضروری تو نہیں!
۔ نومبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment