غزل
رات، اداسی، چاند ستمگر خاموشی
نیند سے بوجھل دیوار و در، خاموشی
سناٹے کا خوف، سسکتی آوازیں
سب آوازوں کا پس منظر خاموشی
خواب جزیرہ؟ وہ تو کب کا ڈوب چکا
اوڑھ چکا بے رحم سمندر خاموشی
میں نے کتنے ہونٹوں کو آوازیں دیں
لیکن میری ذات کے اندر خاموشی
آنسو، تارا، جگنو، شعلہ، بے تابی
سوچ سمندر کے ساحل پر خاموشی
بستر کانٹے جلتی آنکھیں آخرِ شب
مرتے ہیں پلکوں پر اختر، خاموشی
آسیؔ کو کب کچھ کہنا راس آیا ہے
اپنا لی اس نے تنگ آ کر خاموشی
۔ ۹؍ اپریل ۱۹۸۶ء
No comments:
Post a Comment